تحریر: مولانا محمد بشیر دولتی
آج پورا بلتستان سوگوار ہے، گویا قراقرم و ہمالیہ کی برف پوش چوٹیوں نے غم کی چادر اوڑھ لی ہو۔
یاد رکھیں!
قومیں وہی آگے بڑھتی ہیں جو اپنی ترجیحات کا درست اور بر وقت استعمال کرتی ہیں۔ ترجیحات کا بروقت درست استعمال وہی لوگ کرسکتے ہیں جو فکری پختگی اور بصیرت کے مقام پر فائز ہوں۔جن میں فکری پختگی اور بصیرت نہ ہو تو وہ بڑے واقعات و حادثات میں بھی جزئی اختلافات میں الجھ جاتے ہیں۔ایسے لوگ اپنی زندگی اور مکتب کا کوئی ویژن نہیں رکھتے اگر رکھتے بھی ہیں تو اس ویژن کو مشن میں بدل نہیں سکتے بلکہ دوسروں کے وژن کو اپنا مشن سمجھ کر آگے بڑھنے کی کوشش کرتے ہیں۔
ایسے لوگ جتنی تیزی سے آگے بڑھیں گے اپنے اصل مشن و مقصد سے دور ہوتے جائیں گے۔
ان لوگوں میں زندگی کے ہر طبقہ کے لوگ شامل ہیں اگر علماء و طلباء کی اکثریت کو بھی شامل کریں تو بےجا نہ ہوگا۔
دینی تہذیب و تمدن اور ثقافت کا پرچار ہر عالم اور طالب علم کی ذمہ داری ہے۔
بدقسمتی سے آپ کو ایسے علماء بھی نظر آئیں گے جو معاشرے میں مساجد اور مدارس کے ذیادہ ہونے پر معترض ہیں۔
کچھ لوگ دینی جلسہ جلوسوں اور مجالس کی کثرت پر پریشان نظر آتے ہیں۔
کچھ لوگ ہمارے معاشرے میں شادی بیاہ کے موقع پر لاؤڈ سپیکر پہ قصیدہ لگانے پر پابندی لگاتے ہوئے نظر آتے ہیں تو کچھ لوگ زائرین و حاجیوں کے استقبال پر پریشان نظر آتے ہیں
کچھ لوگ محلہ کے جوانوں کا جمع ہوکر دلہے کو قصیدوں کی گونج میں کسی آستانہ یا مقدس مقام پر لے جانے پر آگ بگولہ ہوتے ہیں۔
کچھ جشن کے ایام میں قصیدہ خوانوں کو بلانے پر خفا نظر آتے ہیں تو بعض لوگ شعرائے کرام کو ملنے والی داد و تحسین پر سرد آہ کے ساتھ سراپا احتجاج ہیں۔
دراصل یہ وہ لوگ ہیں جو اسلامی تمدن و ثقافت کے بنیادی عوامل و اسلامی معاشرہ سازی کے آداب و اصول سے غافل ہیں ،ایسے لوگ انہیں چیزوں کے خلاف سوشل میڈیا پر اپنے دل کی بھڑاس نکالنے میں مصروف رہتے ہیں۔
اگر مثبت تنقید مقصود ہے تو شعراء کی شاعری کے محتواء پر نقد ہونی چاہئے نہ کہ ان کو ملنے والی داد و تحسین پر اعتراض کریں۔
شعراء کرام و قصیدہ خوانوں کو کربلاء کی مظلومیت کے ساتھ صبر و استقامت و شجاعت کی طرف توجہ دلانا چاہئے نہ کہ شعر ، شاعری اور قصیدہ و نوحہ خوانوں کے خلاف آپس میں محاذ کھولیں۔
بڑھتی ہوئی تنظیموں، مجامع اور تشکلات کے خلاف بولنے کی بجائے انہیں مثبت کارکردگی اور بہتر فعالیت کی طرف دعوت دینی چاہئے۔
اس وقت بلتستان بھر میں شہید علی کاظم خواجہ اور جان علی رضوی کے سوگ میں ہونے والی مجلسوں اور جلوس کی شکل اختیار کرتے تعزیت پیش کرنے والوں کے خلاف محاذ کھولنے کی بجائے کل یوم عاشورا و کل ارض کربلا کی عملی تصویر سمجھنی چاہئے۔
ننھے نوحہ خوان علی کاظم خواجہ اور جوان نوحہ خواں کے بارے میں شعراء کرام کے اشعار پر تنقید کی بجائے مختلف چوک کو ان کے نام پہ رکھنے کی مخالفت کرنے والوں کو سمجھانا چاہئے کہ یہ بلتستان کے عوام کا تقاضا ہے کسی شخص یا تنظیم کا نہیں ۔
ان مقامات کا نام بدلنا کسی سیاسی تنظیم سے نفرت نہیں بلکہ امام کے ذاکرین سے محبت کا اظہار ہے۔
اس وقت پورا بلتستان سوگ میں ڈوبا ہوا ہے۔ہر آنکھ اشکبار ہیں۔ہر سمت آہوں اور سسکیوں کا پہرا ہے۔ہر گھر گویا ماتم سرا ہے،ہر چوک پر گویا جلوس عزا ہے۔ارض بلتستان میں فن نوحہ خوانی و منقبت خوانی کی کہکشاں اداس ہے۔
آسمان عقیدت کے دو چمکتے دمکتے تارے ہمیشہ کے لئے ڈوب چکے ہیں۔کہنے کو اس کہکشاں میں ابھی اور بہت سے تارے ہیں مگر وہ تارے بھی سبھی غمگین ہیں۔ان کی روشنیوں پر منقبت خواں و نوحہ خواں علی کاظم خواجہ اور سید جان کاظمی کی جدائی کے غم کا پہرا ہے ، سب غم سے نڈھال ہیں۔
خدا ہمارے ان تمام ستاروں کو سدا سلامت رکھے۔
دیکھا جائے تو بلتستان کے نوحہ خواں و منقبت خوانوں نے خود کو قومی اور بین الاقوامی سطح پر منوایا ہے۔
ہمارے شعراء بھی اعلیٰ پائے کی شاعری کررہے ہیں ایسے میں علماء کرام کو اپنا عالمانہ کردار ادا کرتے ہوئے انہیں درست سمت پر برقرار رکھنے کی کوشش کرنی چاہئے، تاکہ دوسرے ننھے نعت خوان ، منقبت خوان اور نوحہ خوان کوک اسٹوڈیو میں جاکر بانسری و باجا اٹھانے کی بجائے علی کاظم کی طرح کربلا جاکر اپنے لئے کربلا سے کفن خرید کر لائیں اور اسے اپنا سرمایہ قرار دیں ۔
دیکھا جائے تو بلتستان کے مؤمنین نے بےمثال استقبال اور تشیع جنازے میں شرکت کے ذریعے ثابت کیا ہے کہ حب الحسین یجمعنا کہتے کسے ہیں؟
اس اجتماع نے ثابت کیا کہ استعمار کی لاکھ کوشش کے باوجود ہمارے دلوں میں یا تو امام حسین بستے ہیں یا پھر حسین علیہ السلام کا ذکر کرنے والے بستے ہیں۔ان لاکھوں لوگوں کا ننھے منقبت خواں اور نوحہ خواں سے کیا رشتہ تھا؟
رشتہ بہت پاکیزہ تھا،صاف و شفاف تھا،کسی بھی غرض و غایت سے ماوراء تھا،رشتہ فقط عقیدے کا تھا،رشتہ عشق کا تھا, رشتہ ایمان کا تھا,اس عظیم اجتماع نے ثابت کیا کہ یہاں بسنے والوں کے دلوں پر کسی ایرے غیرے کا نہیں، بلکہ یاحسین علیہ السّلام کہنے والوں کا قبضہ ہے،منقبت خوانوں کا قبضہ ہے،نعت خوانوں کا قبضہ ہے،نوحہ خوانوں کا قبضہ ہے اور انہیں کا ہی قبضہ رہےگا۔
کوہ قراقرم و ہمالیہ کی بلندیوں کے درمیان ٹھٹھرتے موسم میں کس نے ان لاکھوں لوگوں کو یوں دیوانہ وار باہر نکالا ؟
اس عظیم اجتماع نے ثابت کیا کہ ذکر حسین نام حسین اور ذاکر حسین مومنین کے دلوں میں ایسی حرارت پیدا کرتے ہیں جسے یخ بستہ زمستانی موسم کبھی سرد نہیں کر سکتے۔ہمالیہ و قراقرم کی فلک بوس ، برف پوش پہاڑیاں بھی اس عشق کو منجمد نہیں کرسکتیں۔
اس اجتماع نے شعوری طور پر لبیک یا حسین علیہ السّلام کی صداؤں سے استعمار کو یہ پیغام دیا ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو بھی علی کاظم خواجہ اور سید جان کی طرح مولا حسین کا ذاکر بنائیں گے اور تمہارے اشاروں پر گانے اور ناچنے والے ہرگز نہیں بنائیں گے۔ ان شاءاللہ
آپ کا تبصرہ